ZEESHAN

Breaking

Monday, November 11, 2019

اتفاق میں برکت ہے‘‘

اتفاق میں برکت ہے‘‘

اتفاق میں برکت ہے اس موضوع پر آپ نے بہت سی کہانیاں ’’ایک کسان کے چار بیٹے ‘‘’’چار بیل اور شیر‘‘وغیرہ سنی ہوں گی لیکن یہاں بات نہ تو چار بیلوں کی ہے اور نہ ہی چار بیٹوں کی ہے یہاں با ہینیا پھر لومڑی ان کو ان بیلوں کی طرح الگ کر رہی ہے جو بیل جب اتحاد میں تھے تو جنگل کا بادشاہ شیر بھی ان سے ڈرتا تھا۔
اسی طرح ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے بھی اکٹھے ہو جائیں اور مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے اور یہ صرف اتحاد کی بدولت ہی ممکن ہے آج ہمارے درمیان بھی ایک لومڑی موجود ہے جو ہمیں اتحاد میں رہنے نہیں دیتی اور ہم کو فساد میں ڈال رہی ہے۔لیکن ہر آنکھ اس لومڑی کو دیکھ نہیں پا رہی ہے اور جو دیکھ پا رہی ہیں وہ زبان سے اظہار نہیں کر پا رہیں۔
1971ء میں ہم نے محض اختلافات کی بناء پر مشرقی پاکستان کو کھو دیا اور اس سے ہم نے کچھ سبق نہیں سیکھا ؟جو آج مغربی پاکستان کو بھی کھو دینا چاہتے ہیں اور فرقہ واریت میں پڑ کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہیں اور اپنے ملک کی بنیادوں‘جن میں شہیدوں کا لہو ہے ان کو خود ہی تباہ کر رہے ہیں۔
اس ترقی یافتہ دور کی سب سے بڑی دہشت گردی ہم نے پھولوں کے شہر پشاور میں پھول جیسے بچوں کی شہادت کے طور پر دیکھی اس میڈیا کے دور میں ہم نے اس سے درد ناک واقع دنیا کے کسی کونے میں نہیں دیکھا۔
دوستی اور سشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں بیٹے کی سزا باپ سے یا یا باپ کی سزا بیٹے سے نہیں لی جاتی اور نہ ہی قصور وا ر کی جگہ بے قصور کو سزا دی جاتی ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے۔اسلام تو سلامتی کا دین ہے1400 سال پہلے جب جنگ کیلئے قافلہ روانہ کیا جاتا تھاتو اسے بچوں‘عورتوں اور بوڑھوں کے قتل سے قطعامنع کیا جاتاتھاحتیٰ کہ فصلوں ‘درختوں اور جانوروں کے تحفظ کی بھی ہدائیت کی جاتی تھی ۔حضرت علی شیر خدا جب سب سے بڑے دشمن مرجب کوگرا کر قتل کرنے لگے تو اس نے حضرت علیؒ کے منہ پر تھوک دیا تو آپ ؒ نے اسے معاف کر دیا اور کہا کہ میں زاتی دشمنی میں بدلہ نہیں لیتا۔یہ اسلام کی اصل روح ہے اب مسلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہان متحی بھر دہشت گردوں نے 18کروڑ عوام کوکیسے تنگ کر رکھا ہے کیا وجوہات ہیں کہ یہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اتنی تباہی کر رہے ہیں ۔یہاں بھی مسلہ اتحاد کا ہے اور صرف یہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ ہمارے ارد گرد ‘ہمارے محکموں میں اور ہم خود اپنے ساتھ بھی دہشت گردی کرتے ہیں۔

پچھلے چند برسوں میں پاکستان میں سینکڑوں دھماکے ہوئے جس میں ہزاروں پاکستانی لقمہ اجل بنے دھماکوں کے علاوہ لاکھوں قتل ہوئے لاکھوں بچوں اور بچیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کے ساتھ حیوانہ سلوک کیا گیا لاکھوں دن دیہاڑے ڈکیتیاں ہوئیں اور لاکھوں رات کے اندھیرے میں وارداتیں ہوئیںیہ بھی دہشت گردی ہے

گلی ‘محلے میں شراب اور ہیروئن بیچنا تو ایک معمولی بات بن گئی ہے جس سے نہ صرف نوجوان نسل کو بیکار کیا جاتا ہے بلکہ ان کے جسم میں زہر دھونسا جا رہا ہے۔
ایک طرف تو دہشت گردوں اورمجرموں نے حد کر دی اور دوسری طرف جیسے ہمیں تحفظ فراہم کرنے والے ادارے نیند کی گولیاں کھا کر سو رہے ہوں۔پہلی بات ہے اصل مجرم پکڑے ہی نہیں جاتے اور اگر بد قسمتی سے پکڑا بھی جائے تو کچھ دن بعد ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے اور پھر وہ جرم کی بھیانک ترین دنیا میں چلا جاتا ہے۔کیونکہ’’ جرم بڑھتا ہے معمولی سزا کے بعد‘‘

اسلام آباد‘راولپنڈی ’لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں اغوا برائے تاوان ‘موبائل اور موٹر سائیکل چھیننا تو عام سی بات ہو گئی ہے ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمیں تحفظ فراہم کرنے والے ادارے اس وقت سو رہے ہوتے ہیں جب ہم سے موبائل چھینا جا رہا ہوتا ہے ۔جب سکول جانے والے معصوم بچوں اور بچیوں کو اغوا کیا جا رہا ہوتا ہے اور اگر کوئی شریف باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کی اغوا کی رپورٹ درج کرانے کیلئے تھانے چلا جائے تو اس شریف آدمی سے پولیس والے اس قسم کے سوال کرتے ہیں جن کو سننے کی ذلت ایک شریف آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔یہ ہمارے اداروں میں دہشت گردی ہے یہ کسی آئین میں نہیں لکھا کہ تحفظ فراہم کرنے والے ادارے اپنے ہی تحفظ کیلئے ہوتے ہیں۔ہر آفیسر عوام کا خادم ہوتا ہے کسی کو کوئی بھی رتبہ‘ تمغہ یا مقام عوام اور ملک کی خدمت پر ملتا ہے ۔تما م قوم کو سانحہ پشاور پر حد درجہ دکھ اور افسوس ہے اور حکومت کے خصوصی عدالتوں کے قیام کے اقدام کوسراہتی ہے۔لیکن حکومت کو باقی غریب عوام کے لئے بھی کوئی ایسا قانون بنانا چاہیے جس سے عوام کو ان کے حقوق اور تحفظ ملے اور ملک میں سب متحد ہو کر دہشت گردی کو ختم کریں اور غریب طبقے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔کیونکہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے فرمایا:

’’اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اور بلخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی



No comments:

Post a Comment